Sale
-17%

لغات و اعرابِ قرآن کی روشنی میں ترجمہ قرآن کی لغوی اور نحوی بنیادیں

Original price was: ₨3,000.00.Current price is: ₨2,500.00.

17% Off.
17% Off.
QTY:
Add to wishlist

Product Description

نجاب یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے نامور استاد اور سربراہ پروفیسر حافظ احمد یار مرحوم و مغفور کا نام نامی دینی و علمی حلقوں اور علوم اسلامیہ کی تحصیل بالخصوص قرآن حکیم کی تدریس سے وابستہ اصحاب کے لیے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ حافظ صاحبؒ صرف تفسیر وفقہ کے متخصص ہی نہیں تھے بلکہ دینی علوم سے ماورا جغرافیہ اور فنون لطیفہ با لخصوص فن خطّاطی جیسے میادین بھی ان کی علمی دلچسپیوں کے احاطہ میں شامل تھے۔ تاہم قرآن اور علوم قرآنی سے ان کا شغف عشق کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ قرآن پڑھنا پڑھانا، سننا سنانا، سمجھنا سمجھانا اور اپنی مشکل پسند طبعیت کے ساتھ قرآنی اسرار و رموز کا فہم و تفہیم ان کے لیے روحانی غذا تھی ۔ قرآنی علوم میں اعراب قرآن اور علم الرسم و علم الضبط کی مثلّث گویا اس عشق کا نقطۂ ارتکاز تھی ۔ ان موضوعات پر شائع ہونے والے ان کے وقیع تحقیقی مقالات ان کے علمی کمالات کے اس نادر پہلو پر شاہد ہیں۔ بلاشبہ اس فن میں منفرد حیثیت کے حامل تھے ۔ شاید ہی کسی پاکستانی فاضل نے ان سے بڑھ کر اس میدان میں کام کیا ہو۔ ان کے پاکستانی پیشرؤں میں مولوی ظفر اقبال مرحوم کا نام بہت ذی قدر اور ممتاز نام ہے۔ وہ برطانوی دور میں پنجاب کے سرِ رشتہ تعلیم میں رجسٹرار کے عہدہ پر فائز تھے۔ ہائی سکولوں کے لیے درجات الادب (برائے جماعت ہفتم و ہشتم )، دروس الادب ( برائے نہم و دہم) اور دروس العربیہ (عربی گرامر پر مبنی اردو سے عربی ترجمہ کی تمارین) جیسی مقبول نصابی کتابوں کے مصنف تھے۔ حافظ صاحبؒ انجمن حمایت اسلام کے زیراہتمام رسم عثمانی کے مکمل التزام کے ساتھ شائع کردہ نسخۂ قرآن مجید کے سلسلے میں ان کی محنت شاقّہ اور منفرد علمی خدمت کے بجا طور پر معترف و مدّاح تھے۔ اس فن کے ماہرین اب شاذونادر ہی نظر آتے ہیں۔ یہ بات صرف پاکستان کے حوالے سےہی درست نہیں بلکہ عالمی سطح پر یہ دعویٰ کچھ زیادہ بے جا نہیں۔

مصاحف عثمانی میں اختیار کردہ طریق املاء، الفاظ اور ہجاءِ کلمات ہی اصطلاحاً ’’رسم عثمانی ‘‘ کہلاتا ہے اور کتابت مصاحف میں صحت اور درستی کا معیارِ مطلوب ہی یہ ہے کہ ہر دنیا لکھا جانے والا مصحف رسم اور املاءِ کی حد تک مصمصاحف عثمانی میں سے کسی ایک کی نقل ہو یا اس قسم کی کسی نقلِ صحیح سے نقل کیا جائے۔ امّت میں اصولی طور پر اس امر میں قطعاً کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ کہ کتابتِ قرآن میں اس رسم عثمانی کو ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے حتٰی کہ وہ مکاتب فکر بھی جو رسم عثمانی کی اصطلاح استعمال نہیں کرنا چاہتے بلکہ رسم قرآنی کا نام دیتے ہیں، وہ بھی اس کا اتباع ضروری قرار دیتے ہیں اور کتابت مصاحف میں اس کی پ پابندی لازمی سمجھتے ہیں۔ ’’رسم عثمانی‘‘ کی اس وضاحت کی روشنی میں ’’علم الرسم‘‘ کی جو تعریف حافظ حاحب نے ابرہیم بن احمد المار غنی کی ’’ دلیل الحیران‘‘ ، شرح ’’مورد اظمآن‘‘ سے نقل کی ہے، وہ حسب ذیل ہے:

’’ ہو علم تُعرف بہ مخالفات خطّ المصاحف العثمانیّۃ لِأ صول الرسم القیاسیی‘‘

(علم الرسم وہ علم ہے جس کے ذریعے مصاحف عثمانی کی املاء میں رسم قیاسی کی مخالفت اور اختلافات کا پتہ چلتا ہے )

حافظ صاحب کی اس فن سے دلچسپی کا آغاز جہاں تک میں جانتا ہوں، غالباً ۶۲ /۱۹۶۱ میں قرآن کے مطبوعہ نسخوں کی اس عظیم الشان نمائش کے بعد ہوا جس کا انعقاد ان کے ذاتی اہتمام اور مثالی لگن کی بدولت ممکن ہوا، اگرچہ اس کا انتساب اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور سے کیا گیا کیوں کہ حافظ صاحبؒ ان دنوں وہیں فریضہ تعلیم و تدریس سر انجام دے رہے تھے اور وہیں اس نمائش کا انعقاد ہوا۔

آج کل تو رسم القرآن کی تصریحات کے ساتھ چھپنے والے قرآنی نسخوں کی زیارت ہی کم و بیش امر محال ہے۔ حافظ صاحبؒ نے اس جہت سے مطبوعہ قرآنی نسخوں کو خصوصیت سے جمع کیا تھا۔ غالباً مطبوعہ قرآنی نسخوں کی کوئی نمائش اتنے محدود وسائل کے ساتھ اتنے وسیع پیمانے پر پاکستان میں کہیں منعقد نہیں ہوئی۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے حافظ صاحبؒ کے حکم پر چند نسخے پاکپتن شریف سے لاکر نمائش میں رکھنے کے لیے دیے انہی میں ایک نسخہ میرے دادا جان پیر احمد بخش فریدی مرحوم کا بھی تھا۔

یہ نسخہ قران جو مطبع نظامی کانپور سے ۱۲۷۹ ھ میں باہتمام محمد عبدالرحمٰن بن حاجی محمد روشن خان شائع ہوا، ۱۲X۷ تقتیع کے کل ۲۴۶ صفحات پر مشتمل ہے ۔ ہر صفحہ پر ۱۵ سطریں اور حاشیہ پر بحر العلوم کے حوالے سے رسم کے بارے میں مفید تصریحات ہیں ۔ کسی بھی صفحے کا حاشیہ یہاں نقل کردینے سے’’رسم القران‘‘ کا مفہوم بآسانی سمجھ میں آسکتا ہے ۔ مثلاً ص ۳۴۲ (سورۃ الانبیاء کی آیت ۱۰۱ تا ۱۱۲) پر حاشیہ کی عبارت یوں ہے:
’’ الْحُسْنٰی ‘‘ بیا و ’’اُولئِکَ‘‘ و’’خٰلدُونَ‘‘ بے الف اند و ’’ فی‘‘ از ’’ما‘‘ جُداست، و ’’تَتَلَقَّھُمُ‘‘ بیا، و ’’ھذا‘‘ و ’’ الْملئِکَۃِ‘‘ بے الف و ہمزہ زیر یاست۔۔۔۔۔۔ الخ (ترجمہ : ’’الحُسْنٰی‘‘ یاء کے ساتھ ہے اور ’’اُولٰئِکَ‘‘ اور  ’’ خٰلدُونَ‘‘ الف کے بغیر ہیں اور’’فی‘‘ جدا ہے ’’ما‘‘ سے، اور ’’تَتَلَقَّھُمُ‘‘ یاء کے ساتھ ہے اور ’’ھذا‘‘ اور ’’ المئکۃ‘‘ الف کے بغیر، اور ہمزہ یاء کے نیچے ہے۔۔۔)۔

خوبصورت نسخ، املاء میں مصحف عثمانی کا اتباع اور اعراب و حرکات وغیرہ (ضبط) میں انتہائی احتیاط کے ساتھ صحت کا التزام اس نسخے کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔ یہ نسخہ اب بھی بحمدہٖ تعالٰی میرے پاس نہایت اچھی حالت میں محفوظ ہے اور مجھے فخر ہے کہ حافظ صاحبؒ اس کا شمار ان چند نسخوں میں کرتے تھے جنہیں ان کے نزدیک نمائش کا حاصل قرار دیا جاسکتا تھا۔

تفسیر قرآن بلاشبہ حافظ صاحبؒ کا نہایت ہی محبوب موضوع تھا۔ اپنے نہایت ہی محدود مالی وسائل کے باجود ان کے ذاتی ذخیرہ کتب میں تفاسیر کا وقیع مجموعہ اس پر شاہد و دالّ ہے ۔ جامعہ پنجاب کے شعبہ علوم اسلامیہ کے استا د کی حیثیت سے تفسیر قرآن کے پرچے کی تدریس، مؤسس شعبہ علامہ علاءالدین صدیقی مرحوم کے بعد مسلسل ان کے ذمہ رہی۔ سورۃ النساء کی نہایت عمدہ سلیس تفسیر ’’دستور حیاء‘‘ ( لاہور، رفیق مطبوعات، اکتوبر ۱۹۶۷ء، ص ۵۷۶)بنیادی طور پر کالجوں کے طلبہ کے لیے لکھی گئی مگر عام قارئین کے استفادہ کے لیے بھی اسے ایک بہترین تفسیر کہا جا سکتا ہے ۔ اس کی اشاعت سے پہلے بی اے کے اسلامیات (اختیاری) کے طلبہ کے لیے سورۃ محمد اور سورۃ الفتح کی تفسیر پروفیسر ابوبکر غزنوی مرحوم (متوفی ۱۹۷۶ء) کے ساتھ بطور شریک مؤلف  کے شائع کی، بی اے کے طلبہ کے لیے ہی حافظ صاحبؒ کی تصنیف بعنوان ’’دین و ادب‘‘ میں مقدمہ مطالعہ قرآن اور ترجمہ و تفسیر سورہ آل عمران ( مع قائمۃ الکمات۔۔۔۔ مشکل کلمات کے معانی و مطالب) پر مشتمل جز ء بھی تسہیل معانی و مطالب قرآن کی عمدہ مثال ہے۔

تاہم فن تفسیر میں حافظ صاحبؒ کی دقت پسند طبیعت کے کمال کا مظاہرہ ان کی اعراب القرآن سے گہری دلچسپی تھی۔ چنانچہ انہوں نے حکمت قرآن میں لغات و اعراب قرآن پر فاتحہ الکتاب سے جس مؤقّر سلسلے کا آغاز کیا وہ جنوری ۱۹۸۹ ء کے پرچہ (۱۸) سے شروع ہوکر ان کی رحلت کے بعد چھوڑے ہوئے مواد کی طباعت و اشاعت کی شکل میں جاری رہا اور اس کی آخری قسط (نمبر ۹۳) حکمت قرآن کے جولائی ۱۹۹۸ء کے پرچہ میں شائع ہوئی۔ یہ قسط سورۃ البقرہ کی آیت ۱۱۰ پر مختتم ہوتی ہے۔ اردو زبان میں اس موضوع پر اسے بلا شک ایک شاہکار کہا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی دو اقساط (جو اس سلسلے کے تعارف پر مشتمل تھیں ) سے بخوبی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کے ذہن میں اس عظیم منصوبہ کے خدّوخال اور مقاصد کیا تھے۔ افسوس کہ ان کی عمر نے وفا نہ کی اور ان کا یہ خواب شرمندٔہ تکمیل نہ ہو سکا۔ نا چیز کی جب بھی ان سے ملاقات ہوتی، ان سے یہی درخواست کرتا کہ تفاصیل و دقائق سے صرفِ نظر کرکے لغات واعراب کے اہم نکات پر اکتفا کریں۔ مدعا یہ تھا کہ یہ عظیم کام ان کی زندگی میں انجام کو پہنچ جائے۔ مگر ان کی کمال پسند (Perfectionist) اور محتاط طبیعت کو اس پر قابو ہی نہیں تھا کہ وہ درجۂ کمال سے کم کسی چیز کو قبول کر سکیں۔

عزیز گرامی ڈاکٹر نعم العبد (حافظ صاحبؒ کے فرزند ارجمند) لائق تحسین و تبریک ہیں کہ انہوں نے اپنے وسائل سے اپنے ذی قدر و عالی مرتبت والد کی اس گراں قدر علمی میراث کے احیاء و اشاعت کا بیڑا اٹھایا۔ حافظ صاحبؒ کے اس عظیم منصوبہ کی وسعت اور گہرائی و گیرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ کی ۲۸۷ آیات میں سے ۱۱۰ آیات (پہلے پارہ میں سورۃ البقرۃ کی آیات ۱۴۱ ہیں ) پر مشتمل ان کا یہ وقیع و انتہائی بیش قیمت کام حافظ صاحبؒ کے ہی تحریر کردہ مقدِّمہ سمیت کل ۹۴۴ صفحات پر محیط ہے۔ اگر عمر عزیز وفا کرتی اور حافظ صاحبؒ اپنے خواب کی مکمل تعبیر صفحات قرطاس پر منتقل کر سکتے تو اس کارِ خیر و عظیم کی پنہائی کا تصور کیجیے ۔ تاہم موجودہ کام بھی لغات و اعراب قرآن اور رسم و ضبط پر حافظ صاحبؒ کے وسیع مطالعہ اور تحقیق پر شاہد عادل ہے۔ رب علیم و کریم حافظ صاحب کی اس عظیم خدمت کو، جو اس کتاب جلیل سے ان کے عشق کا زندۂ جاوید مظہر ہے، اپنی بارگاہ میں شرف قبول سے سرفراز فرمائے اور جنت الفردوس میں انہیں مراتب عالیہ پر فائز فرمائے۔ عزیزی ڈاکٹر نعم العبد نے جس خلوص و محبت اور ایثار و استقلال کے ساتھ اس کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے اس کے لیے خدائے ذوالجلال ولایزال کے ہاں اجر جزیل ولازوال بفضلہ سبحانہ مقدّر ہے ان شاءاللہ العزیز۔

یہاں اس اہم نکتہ کی طرف توجہ دلانا بیجانہ ہوگا کہ دقّت و تعّمق کے ساتھ حقیقی فہم قرآن کے لیے حافظ صاحب کی اس تصنیف سے استفادہ کے متمنّی حضرات کے لیے عربی صرف و نحو پر خاطر خواہ دسترس ضروری ہے۔ حافظ صاحب نے مقدمہ میں صراحت سے واضح کیا ہے:
’’ ہمارا شعار (MOTTO) یہ ہے کہ ـــ ’’عربی سیکھئے ـــ قرآن کیلئے۔ قرآن کے ذریعے‘‘ امید ہے کہ اس کتاب کے ذریعے عربی زبان کی صرف و نحو کا نسبتاً زیادہ مدت تک مطالعہ کرنے والوں ـــ مثلاً درس نظامی کے موقوف علیہ یا اس سے کچھ کم تک تعلیم یافتہ حضرات ـــ کو اپنا علم (صرف و نحو) ، فہم قرآن میں استعمال کرنے کا موقع ملے گا، اور نسبتاً کم وقت میں قواعدِ زبان سیکھنے والوں ـــ اور ـــ تمام قواعد کو پوری طرح ذہن نشین نہ کرسکتے والے حضرات ـــ خصوصاً ہمارے مجوزہ نصاب سے کم از کم ایک دفعہ ’’گزر جانے والے ‘‘ حضرات ـــ کو اس کتاب کے ذریعے قواعد زبان کو ذہن میں جا گزین کرنے کے لئے بتکرار ’’مشق و اعادہ‘‘ کا موقع میسر آئے گا۔‘‘

بلاشک قرآن مجید طالبان ہدایت و جُویانِ راہ حق کے لیے ایک کھلی کتاب ہے اور ارشاد ربانی اس پر وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ  اس پر شاہد و دالّ ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ژرف نگاہی کے ساتھ حکمتِ قرآن کے اسرار و رموز کی معرفت کے لیے لغات قرآن اور اعراب قرآن پر مبتدیانہ نہیں بلکہ عالمانہ دسترس شرط اوّلین ہے۔ زیر نظر کتاب قرانی بصیرت کے متلاشی نفوسِ زکیہ کے لیے مَدخل اور باب الفتح کی حیثیت رکھتی ہے۔

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “لغات و اعرابِ قرآن کی روشنی میں ترجمہ قرآن کی لغوی اور نحوی بنیادیں”

Your email address will not be published. Required fields are marked *

X
×

Hello!

Click one of our contacts below to chat on WhatsApp

×